نئی دہلی، 23/اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی) سپریم کورٹ میں دہلی-این سی آر میں بڑھتی آلودگی کے مسئلے پر سماعت کے دوران پرالی جلانے کے واقعات پر شدید بحث ہوئی۔ جسٹس ابھے ایس اوک، جسٹس احسان الدین امان اللہ، اور جسٹس آگسٹن جارج مسیح پر مشتمل بنچ نے پنجاب اور ہریانہ کے حکام کے خلاف سخت مؤقف اپنایا۔ عدالت نے سوال کیا کہ حکام کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور اس معاملے سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ سپریم کورٹ نے کہا کہ پرالی جلانے کے خلاف قوانین اپنی اہمیت کھو چکے ہیں کیونکہ سزاؤں کی بجائے معمولی جرمانے کیے جا رہے ہیں، جس سے ماحولیات کے تحفظ کے قوانین کمزور ہو رہے ہیں۔
عدالت نے ماحولیات کے تحفظ ایکٹ کے سیکشن 15 کے تحت دائر جرمانوں کے کمزور نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سے سوال کیا کہ کیوں ریاستی افسران کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوا؟ اس موقع پر ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) ایشوریا بھاٹی نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب اور ہریانہ دونوں ریاستوں کے افسران کو وجہ بتاؤ نوٹسز جاری کیے جا چکے ہیں۔ عدالت نے مزید سوال کیا کہ کیوں ریاستی افسران پر فوجداری مقدمات نہیں چلائے گئے اور محض نوٹسز کے اجرا کو ناکافی قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو بھی سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر سوال اٹھایا۔ عدالت نے کہا کہ آپ صرف نوٹس جاری کر رہے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والے بچ نکل رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس سال پرالی جلانے کے 1510 واقعات کی اطلاع دی گئی، جن میں سے 1084 پر ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، تاہم عدالت نے ان میں سے 470 کیسز میں معمولی جرمانے عائد کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔
عدالت نے مزید کہا کہ قوانین کو توڑنے والوں کو جرمانے کی بجائے سخت سزا دی جانی چاہیے اور جرمانے کی رقم کو بڑھانے پر بھی غور کیا جائے۔ پنجاب حکومت نے کہا کہ 417 افراد سے 11 لاکھ روپے کا جرمانہ وصول کیا گیا ہے، لیکن سپریم کورٹ نے جواب دیا کہ یہ جرمانہ اتنا معمولی ہے کہ اس سے لوگوں کو قوانین توڑنے کی ترغیب مل رہی ہے۔
ہریانہ حکومت نے بھی اپنی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے 5 ہزار سے زیادہ نوڈل افسران تعینات کیے ہیں اور اس سال اب تک 32 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، تاہم سپریم کورٹ نے ہریانہ حکومت کے اس دعوے پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ آپ کی کارروائی ناکافی اور سلیکٹیو ہے۔
سپریم کورٹ نے دونوں ریاستوں کو حکم دیا کہ وہ 4 نومبر کو ہونے والی اگلی سماعت تک اپنے اقدامات کے بارے میں تفصیلی حلف نامے داخل کریں، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آلودگی کی روک تھام کے لیے کتنے مؤثر اقدامات کیے گئے ہیں؟